مرزا قادیانی اورقادیانیوں کے کفر کے متعلق مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ
تحریر: حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یہ سعادت تھی کہ انہوں نے اکابر مشائخ کی نگرانی میں فتوی نویسی میں کمال حاصل کیا اور پھر ایک وقت آیا کہ ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند میں انہیں صدارت افتاءکی مسند تفویض ہوئی جس کی بدولت انہیں ”مفتی اعظم“ کا خطاب بجاطور پر حاصل ہوا۔ اس دوران آپ نے قادیانیت کے بارے میں بھی بہت سے فتوے جاری فرمائے‘ جن میں سے بعض میں قادیانیوں کی شرعی حیثیت کو واضح فرمایا گیا اور بعض میں ان کے شبہات کا قلع قمع کیا گیا۔ یہاں چند فتوﺅں کو نقل کر دینا خالی از فائدہ نہ ہو گا۔
پہلا فتویٰ:
س: لاتکفر اھل قبلتک حدیث ہے یا نہیں اور ا س کا کیا مطلب ہے؟
ج: حدیث لاتکفر اھل قبلتک کے متعلق جواباً عرض ہے کہ ان لفظوں کے ساتھ یہ جملہ کسی حدیث کی کتاب میں نظر سے نہیں گزرا لیکن اس مضمون کے جملے بعض احادیث میں وارد ہیں مگر قادیانی مبلغ جو ان الفاظ کو ناتمام نقل کر کے اپنے کفر کو چھپانا چاہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی حیثیت ا س سے زیادہ نہیں جیسے قرآن سے کوئی شخص لاتقربوا الصلوٰة نقل کرے کیونکہ جن احادیث میں اس قسم کے لفظ واقع ہیں ان کے ساتھ ایک قید بھی مذکور ہے یعنی بذنب ادبعمل وغیرہ جس کی غرض یہ ہے کہ کسی گناہ و معصیت کی وجہ سے کسی اہل قبلہ کو یعنی مسلم مسلمان کو کافر مت کہو چنانچہ بعض روایت میں اس کے بعد ہی یہ لفظ بھی مذکور ہے۔ الا ان تروا کفرا بواحا یعنی جب تک کفر صریح نہ دیکھو کا فر مت کہو خواہ گناہ کتنا بھی سخت کرے۔
یہ روایت ابوداﺅد کتاب الجہاد میں حضرت انسؓ سے اس طرح مروی ہے الکف عمن قال لا الہ الا اللہ ولا تکفرہ بذنب ولا تخرجہ من الاسلام بعمل نیزبخاری نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے۔ مرفوعاً من شہد ان لا الہ الا اللہ واستقبل قبلتنا وصلی صلاتنا واکل ذبیحتنا فھو المسلم اہل قبلہ سے مراد باجماع امت وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریات دین کو مانتے ہیں نہ کہ یہ قبلہ کی طرف نماز پڑھ لیں چاہے ضروریات اسلامیہ کو انکار کرتے رہیں
کما فی شرح المقاصد الجلد الثانی م صفحہ ۸۶۲ الی صفحة ۰۷۲ قال المبحث السابع فی حکم مخالف الحق من اھل القبلة لیس بکافر مالم یخالف ما ھو من ضروریات الدین الی قولہ والا فلا نزاع فی کفراھل القبلة المواظب طول العمر علی الطاعات باعتقاد قدم العالم و نفی الحشر ونفی العلم بالجزئیات وکذا بصدور شئی من موجبات الکفر الخ و فی شرح الفقہ الاکبروان غلافیہ حتیٰ وجب اکفارہ لایعتبر خلافہ ووفاتہ ایضاً الی قولہ وان صلی الی القبلة واعتقد نفسہ مسلما لان الامة لیست عبادة عن المصلین الی القبلة بل عن المومنین ونحوہ فی الکشف البزدوی صفحہ ۸۳۲‘ ج ۳ و فی الشافی صفحہ ۷۷۳‘ ج ۱ باب الامامة لاخلاف فی کفرہ المخالف فی ضروریات الاسلام و ان کان من اھل القبلة المواظب طول عمرہ علی الطاعات وقال الشامی ایضاً اھل القبلة فی اصطلاح المتکلمین من یصدق بضروریات الدین ای الامور التی علم ثبوتھا فی الشرع واشتھر ومن انکر شیئا من ضروریات کحدوث العالم و حشر الاجساد و علم اللہ سبحانہ بالجزئیات وفریضة الصلوٰة والصوم لم یکن من اھل القبلة ولوکان مجاھداً بالطاعات الی قولہ و معنی عدم تکفیر اھل القبلة ان لا یکفر بارتکاب المعاصی ولا بانکار الامور الخفیة غیر المشہورة ھذا ماحققہ المحققون فاحفظہ ومثلہ قال المحقق ابن امیر الحاج فی شرح التحریر لا بن ھمام والنہی عن تکفیر اھل القبلة ھو الموافق علی ماھو من ضروریات الاسلام ھذہ جملة قلیلة من اقوال العلماءنقلتہا واکتفیت بھا لقلة الفراغة وتفصیل ھذہ المسئلہ فی رسالة اکفار الملحدین فی شئی من ضروریات الدین لشیخنا ومولانا الکشمیری مدظلہ واللہ اعلم۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ص ۱۱۱ تا ۳۱۱‘ ج ۲